Best Urdu Story – “تہہ خانے کا راز”

urdu stories

رات کی سیاہی گہرائی میں ڈوبی ہوئی تھی جب علی، عمران اور فاطمہ نے اُس پرانی اور ویران حویلی میں قدم رکھا۔ یہ حویلی برسوں سے ویران پڑی تھی اور گاؤں کے لوگ اسے “بدروحوں کا مسکن” کہتے تھے۔ لیکن علی کو ہمیشہ ایسی جگہوں پر جانے کا شوق رہا تھا جہاں پراسرار راز چھپے ہوں۔ فاطمہ کو بھی قدیم عمارتوں میں دلچسپی تھی، اور عمران ہمیشہ اپنے دوستوں کا ساتھ دینے کو تیار رہتا تھا، چاہے دل میں خوف ہی کیوں نہ ہو۔
حویلی کا دروازہ پرانا اور زنگ آلود تھا، جیسے صدیوں سے کھولا نہ گیا ہو۔

جب علی نے دھیرے سے دروازے کو دھکیلا، تو ایک بھیانک چرچراہٹ نے خاموش فضا کو چیر دیا۔ اندر داخل ہوتے ہی حویلی کا ماحول ان پر بوجھ سا ڈالنے لگا۔ اندر کا منظر انتہائی پراسرار اور بھوتیہ تھا؛ پرانی دیواروں پر دھول جمع ہو چکی تھی اور فرش پر قدموں کے نشان بھی کہیں نظر نہیں آ رہے تھے، جیسے برسوں سے یہاں کوئی آیا ہی نہ ہو۔
“یہ جگہ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی،” عمران نے دھیرے سے کہا، مگر علی نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا، “یہ صرف تمہارا وہم ہے۔ چلو آگے بڑھتے ہیں۔”

تینوں نے آگے بڑھنا شروع کیا۔ حویلی کے اندر ہر قدم کے ساتھ سردی کا احساس بڑھتا جا رہا تھا۔ فاطمہ نے محسوس کیا کہ کمرے کی دیواروں پر لگی پرانی تصویروں میں سے ایک تصویر اُن پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اُس نے تصویر کے قریب جا کر غور سے دیکھا، تو اُس میں ایک خاندان دکھایا گیا تھا۔ ایک مرد، ایک عورت اور ایک چھوٹا بچہ۔ ان کے چہروں پر عجیب سی مسکراہٹ تھی، مگر آنکھوں میں خوف کا سایا تھا۔
“یہ لوگ کون ہو سکتے ہیں؟” فاطمہ نے سوچا۔

URDU STORYDeep Sad QuotesBest Family QuotesBest Sad Quotes about Life

علی نے تصویروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، “کہتے ہیں کہ یہ حویلی کبھی ایک امیر خاندان کی ملکیت تھی جو اچانک غائب ہو گیا تھا، اور تب سے اس جگہ پر عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے ہیں۔”
“ہمیں یہاں زیادہ دیر نہیں رکنا چاہیے،” عمران نے بے چینی سے کہا۔
اچانک، ایک زوردار آواز آئی جیسے کوئی دروازہ بند ہوا ہو۔ تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور حیران رہ گئے۔ علی نے ہمت جمع کرتے ہوئے تہہ خانے کی طرف اشارہ کیا، “شاید یہ آواز نیچے سے آئی ہو۔”

تینوں آہستہ آہستہ تہہ خانے کی سیڑھیوں کی طرف بڑھے۔ سیڑھیاں تاریک اور سرد تھیں، اور ہر قدم پر لگتا تھا جیسے نیچے سے کوئی نامعلوم قوت اُنہیں اپنی طرف کھینچ رہی ہو۔ جیسے ہی وہ نیچے پہنچے، تہہ خانے کا دروازہ آہستہ سے خودبخود کھل گیا۔
تہہ خانے میں داخل ہوتے ہی اُنہیں سرد ہوا کا ایک جھونکا محسوس ہوا۔ تہہ خانے کے ایک کونے میں ایک پرانا صندوق پڑا تھا جس پر مٹی اور دھول کی موٹی تہہ جمی ہوئی تھی۔ علی نے صندوق کو کھولا، اور اندر ایک پرانا کاغذ اور کچھ پرانی تصویریں تھیں۔ کاغذ پر لکھا تھا:
“یہاں سے جو بھی نکلنے کی کوشش کرے گا، وہ کبھی زندہ واپس نہیں جائے گا۔”

علی کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اسی لمحے، تہہ خانے کی دیواروں سے عجیب سی سرگوشیاں سنائی دینے لگیں۔ فاطمہ نے گھبرا کر علی کا ہاتھ تھام لیا، اور عمران پیچھے کی طرف بھاگنے لگا، مگر سیڑھیاں غائب ہو چکی تھیں۔
اب وہ تینوں تہہ خانے کے بیچوں بیچ کھڑے تھے، اور وہیں دیواروں سے پرانے، بھوتیہ چہرے ابھرنے لگے۔ ان چہروں میں وہی خاندان نظر آ رہا تھا جو تصویر میں تھا، مگر اب ان کی آنکھیں خالی تھیں، اور چہروں پر مسکراہٹ کی بجائے نفرت اور غصے کا اظہار تھا۔

علی نے جلدی سے صندوق کو دوبارہ بند کرنے کی کوشش کی، مگر وہ خود بخود کھلتا جا رہا تھا۔ تہہ خانے کی سرد ہوا اور تیز ہو چکی تھی، جیسے کوئی بھوت یا آسیب اُنہیں اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کر رہا ہو۔
“ہمیں یہاں سے نکلنا ہوگا!” عمران نے چلاتے ہوئے کہا، مگر کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔

اچانک، علی کو محسوس ہوا کہ صندوق کے نیچے ایک اور تہہ ہے۔ اس نے صندوق کو ہٹایا اور نیچے ایک چھوٹا سا دروازہ نظر آیا۔ تینوں نے جلدی سے اُس دروازے کو کھولا اور اندر داخل ہو گئے۔ اندر ایک تاریک سرنگ تھی، جو شاید حویلی سے باہر نکلنے کا راستہ ہو سکتی تھی۔
مگر جیسے ہی وہ سرنگ میں آگے بڑھے، اُنہیں پیچھے سے قدموں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ وہ بھاگتے جا رہے تھے، مگر آوازیں اور قریب آتی جا رہی تھیں۔ سرنگ کا راستہ ختم ہونے کو تھا، اور جب وہ آخری موڑ پر پہنچے، تو سامنے ایک اور دروازہ تھا۔

دروازے کے پار وہ واپس حویلی کے ہال میں پہنچ گئے، مگر اب وہی تصویریں جو پہلے دیواروں پر تھیں، غائب ہو چکی تھیں۔ حویلی کا ماحول اور بھی پراسرار ہو چکا تھا، اور باہر کی دنیا سے رابطہ ختم ہو چکا تھا۔
کیا وہ تینوں اس حویلی کے راز سے بچ پائیں گے یا ہمیشہ کے لیے اسی کہانی کا حصہ بن جائیں گے؟
یہ وہ سوال تھا جو اُنہیں ہر لمحے خوف میں مبتلا کر رہا تھا۔

CONTINUE READING

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here