Best Urdu Stories “تہہ خانے کا راز” Part-2

urdu stories

علی، فاطمہ، اور عمران جیسے ہی حویلی کے مرکزی ہال میں واپس پہنچے، ان کے چہروں پر خوف واضح تھا۔ حویلی کی حالت بدل چکی تھی؛ دیواریں جن پر پہلے ٹوٹی پھوٹی اینٹیں اور دھول تھی، اب خون کے دھبوں سے سجی ہوئی تھیں، اور پرانی تصویروں میں موجود چہرے مکمل طور پر مٹ چکے تھے، صرف آنکھیں باقی تھیں جو اُنہیں گھور رہی تھیں۔
“یہ جگہ تو جیسے زندہ ہو گئی ہے…” فاطمہ نے سرگوشی کی۔
“ہمیں فوراً یہاں سے نکلنا ہوگا!” عمران نے گھبراتے ہوئے کہا۔

علی نے ارد گرد کا جائزہ لیا، لیکن کوئی باہر نکلنے کا راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ ہر دروازہ، جو پہلے کھلا تھا، اب کسی پراسرار طاقت سے بند ہو چکا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ حویلی انہیں قید کرنا چاہ رہی ہو۔
“یہ سب کچھ ہماری سمجھ سے باہر ہے،” علی نے سوچتے ہوئے کہا۔ “لیکن ایک چیز واضح ہے—یہ جگہ ہمیں یہاں سے جانے نہیں دے گی جب تک کہ ہم اس کا راز نہ سمجھ لیں۔”
تینوں نے دوبارہ تہہ خانے کی طرف جانے کا فیصلہ کیا، جہاں انہیں پہلی بار صندوق ملا تھا۔ شاید وہاں کوئی ایسا سرا مل جائے جس سے انہیں رہائی نصیب ہو سکے۔ جب وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے تہہ خانے میں پہنچے، تو وہاں کا منظر بالکل بدل چکا تھا۔ جہاں پہلے ایک صندوق تھا، اب وہاں ایک عجیب سا نشان زمین پر کھدا ہوا تھا، جس میں سے مدھم سی روشنی نکل رہی تھی۔
“یہ نشان تو وہی ہے جو ہمیں اُس کتاب میں ملا تھا،” فاطمہ نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔

علی نے نشان کی طرف بڑھتے ہوئے کہا، “شاید یہی وہ جگہ ہے جہاں سے ہمیں اس حویلی کے راز کا پتہ چل سکتا ہے۔”

علی نے نشان کے گرد چکر لگاتے ہوئے غور کیا۔ اچانک، اُس کے قدموں کے نیچے کی زمین لرزنے لگی اور نشان کے درمیان سے دھوئیں کا ایک گھنا بادل نمودار ہوا۔ اُس بادل کے اندر سے ایک بوڑھے آدمی کا سایہ نمودار ہوا، جو انتہائی خوفناک تھا۔ اس کی آنکھیں گہری سیاہ تھیں اور اُس کے چہرے پر موت کا سایا تھا۔
“تم لوگ یہاں کیوں آئے ہو؟” اُس سائے نے گرج دار آواز میں پوچھا۔
علی نے ہمت جمع کرتے ہوئے کہا، “ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اس حویلی کا راز کیا ہے؟ یہ ہمیں کیوں قید کر رہی ہے؟”
سایہ ہنسا، اور اس کی ہنسی اتنی گہری تھی کہ تہہ خانہ لرزنے لگا۔ “یہ حویلی اُس خوف کا مسکن ہے جو انسان کے دل میں چھپا ہوتا ہے۔ یہاں وہ لوگ قید ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے خوف کا سامنا کرنے سے انکار کیا۔”
فاطمہ نے کانپتے ہوئے کہا، “تو ہم یہاں سے کیسے نکل سکتے ہیں؟”

سایہ بولا، “اگر تم اپنے خوف کو شکست دے دو، تو یہ حویلی تمہیں چھوڑ دے گی۔ لیکن اگر تم نے ہار مان لی، تو تم بھی اس حویلی کا حصہ بن جاؤ گے، جیسے باقی لوگ بن چکے ہیں۔”

علی نے اپنے ارد گرد نظر دوڑائی۔ وہ خوف میں ڈوبا ہوا تھا، مگر اسے سمجھ آ چکی تھی کہ اگر وہ یہاں سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے خوف کا سامنا کرنا ہوگا۔
“مجھے سب سے زیادہ ڈر اس بات کا ہے کہ میں اپنی ناکامی کے خوف سے کبھی آگے نہیں بڑھ پاؤں گا،” علی نے دل میں کہا۔ “لیکن آج، میں اپنے اس خوف کا سامنا کروں گا۔”

علی نے آنکھیں بند کیں اور گہری سانس لی۔ اس نے خود کو حوصلہ دیا کہ وہ اس خوف کو شکست دے سکتا ہے۔ جیسے ہی اس نے اپنے خوف پر قابو پایا، اچانک سارا منظر بدلنے لگا۔ سایہ مدھم پڑنے لگا، اور تہہ خانے کی دیواریں ایک بار پھر لرزنے لگیں۔
عمران اور فاطمہ بھی اپنے خوف کا سامنا کرنے لگے۔ عمران کو اندھیروں سے ڈر لگتا تھا، مگر اس نے آنکھیں کھول کر تہہ خانے کی گہرائیوں کو دیکھا اور محسوس کیا کہ یہ اندھیرا اب اُسے قید نہیں کر سکتا۔ فاطمہ کو تنہا ہونے کا خوف تھا، لیکن اُس نے اپنے دل کی گہرائیوں میں اُتر کر دیکھا کہ وہ اکیلی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ اُس کے دوست ہیں۔

جیسے ہی تینوں نے اپنے اپنے خوف کو شکست دی، تہہ خانے کی روشنی تیز ہو گئی اور دروازہ زور سے کھل گیا۔ وہ سب حیرت زدہ رہ گئے—حویلی کا ماحول ایک دم سے نارمل ہو چکا تھا۔ تصویریں واپس اپنی اصل حالت میں تھیں، دیواروں پر لگے خون کے دھبے غائب ہو چکے تھے، اور سردی کی وحشت بھری ہوا بھی ختم ہو چکی تھی۔
“ہم نے اپنے خوف پر قابو پا لیا…” علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔

تینوں نے حویلی سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا کہ اب باہر کا منظر بالکل عام سا تھا، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ گاؤں کی سڑکیں خالی تھیں، مگر اب وہ خوف کا سایہ کہیں بھی نہیں تھا۔
“یہ جگہ اپنے اندر بہت سے راز رکھتی ہے، مگر ایک بات طے ہے: یہ حویلی ہمیں اُس وقت تک قید رکھتی جب تک ہم خود کو آزاد نہ کرتے،” فاطمہ نے کہا۔

علی، فاطمہ، اور عمران نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور دل میں شکر ادا کیا کہ انہوں نے اپنے خوف کا سامنا کیا اور بچ نکلے۔ وہ اب جان چکے تھے کہ زندگی میں سب سے بڑا دشمن اُن کا اپنا خوف ہوتا ہے، اور اُس کا سامنا کرنا ہی حقیقی آزادی ہے۔
________________________________________
خاتمہ:
تینوں دوست اپنی اپنی زندگی میں واپس آگئے، لیکن حویلی کے پراسرار راز اور خوفناک تجربات نے انہیں ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ وہ جان چکے تھے کہ دنیا میں کوئی بھی جگہ کتنی ہی پراسرار کیوں نہ ہو، اصل قید انسان کے دل اور دماغ میں ہوتی ہے۔
“تہہ خانے کا راز” ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکا تھا، مگر اُن کے دل میں وہ رات ایک یادگار کے طور پر ہمیشہ باقی رہے گی۔

CONTINUE READING-PART 1

/p>

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here